متفقہ اعلامیہ

قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسلامیجمہوریۂ پاکستان کے متفقہ دستور کے تقاضوں کے عین مطابق پیغامِ پاکستان کے ذریعے  درج ذیل اقدامات کا اعلامیہ پیش کیا جاتا ہے:

١.پاکستان کا 1973ء کا دستور اسلامی اور جمہوری ہے اور یہ پاکستان کی تمام اکائیوں کے درمیان  سماجی اور عمرانی معاہدہ ہے جس کی توثیق تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ  نے متفقہ طور پر کی ہوئی ہے، اس لیے اس دستور کی بالادستی کو ہر صورت میں یقینی بنایا جائے، نیز ہر پاکستانی، ریاستِ پاکستان کے ساتھ ہر صورت میں اپنی وفاداری کا وعدہ وفا کرے۔ 

٢.اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے دستور کی رو سے تمام شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت حاصل ہے ان حقوق میں قانون و اخلاق عامہ کے تحت مساوی  حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری ، سماجی،اقتصادی اور سیاسی عدل، اظہار خیال، عقیدہ، عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہے۔ 

٣. اسلامی جمہوریۂ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، جس کے دستور کا آغاز اس قومی و ملی میثاق سے ہوتا ہے: اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہے ، وہ ایک مقدس امانت ہے۔ نیز دستور میں اس بات کا اقرار بھی موجود ہے کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور موجودہ قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا۔

٤.پاکستان کے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے قرآن و سنت کے احکام کے نفاذ کی پر امن جدوجہد کرنا  ہر مسلمان کا دینی حق ہے۔ یہ حق ،دستور پاکستان کے تحت اسے حاصل ہے اور اس کی ملک میں کوئی ممانعت نہیں ہے، جب کہ بہت سے ملی اور قومی مسائل کا سبب اللہ تعالی سے کیےہوئے عہد سے رو گردانی ہے ۔ اس حوالے سے پیش رفت کرتے ہوئے     ادارہ تحقیقات اسلامی ، اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلنٹ بینچ کو مزید فعال بنایا جائے۔

٥.دستور کے کسی حصہ پر عمل کرنے میں کسی کوتاہی کی بنا پر ملک کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار کسی صورت درست نہیں۔ لہٰذا اس کی بنا پر ملک یا اس کی حکومت، فوج یا دوسری سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو غیر مسلم قرار دینےا ور ان کے خلاف مسلح  کارروائی کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے اور ایسا عمل اسلامی تعلیمات کی رو سے بغاوت کا سنگین جرم قرار پاتا ہے۔نفاذ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں، جن کا ہمارے ملک کو سامنا ہے، قطعی حرام ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ ریاست ، ملک وقوم اور وطن کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور ان کا تمام تر فائدہ اسلام دشمن اور ملک دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔ لہذا ریاست نے ان کو کچلنے کے لیے”ضرب عضب“ اور ”رد الفساد“  کے نام سے جو آپریشن شروع کر رکھے ہیں اور قومی اتفاق رائے سے جو لائحۂ عمل تشکیل دیا ہے، ان کی مکمل حمایت کی جاتی ہے۔

٦.دہشت گردی کے خلاف  جنگ میں علماء اور مشائخ  سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے طبقات ریاست اور مسلح افواج کے  ساتھ کھڑے ہیں اور پوری قوم قومی بقاء کی اس جنگ میں افواج پاکستان اور پاکستان کے دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مکمل اور غیر مشروط تعاون کا اعلان کرتی ہے۔

٧.تمام دینی مسالک کے نمائندہ علماء نے  شرعی دلائل کی روشنی میں قتل ناحق کے عنوان سے خود کش حملوں کے حرام قطعی ہونے کا جو فتویٰ جاری کیا تھا اس کی مکمل حمایت کی جاتی ہے، نیز لسانی، علاقائی، مذہبی اور  مسلکی شناختوں کے نام پر جو مسلح گروہ ریاست کے خلاف مصروف عمل ہیں، یہ سب شریعت کے احکام کے منافی اور قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا سبب ہیں، لہٰذا ریاستی اداروں کو  ان تمام گروہوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔

٨.فرقہ وارانہ منافرت، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت کے احکام کی مخالفت اور فساد فی الارض ہے، نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان  کے دستور و قانون کی رو سے ایک قومی اور ملی جرم ہے۔

٩. وطن عزیز میں قائم تمام درسگاہوں کا بنیادی مقصد تعلیم و تربیت ہے۔ ملک کی تمام سرکاری و نجی درسگاہوں کا کسی نوعیت کی عسکریت(militancy)، نفرت انگیزی  (hatred)، انتہا پسندی (extremism)، اور تشدد پسندی (violence) پر مبنی تعلیم یا تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر کوئی فرد یا ادارہ اس میں ملوث ہے تو اس کے خلاف ثبوت و شواہد کے ساتھ کارروائی کرنا حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمے داری ہے۔

١٠. انتہا پسندانہ سوچ اور شدت پسندی  کے خلاف فکری جہاد اور انتظامی اقدامات ناگزیر ہیں۔ گزشتہ عشرے سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ یہ منفی رجحان مختلف قسم کے تعلیمی اداروں میں پایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ رجحان فکر (mindset) جہاں کہیں بھی ہو ہمارا دشمن ہے۔ ایسے لوگ خواہ کسی بھی درسگاہ سے منسلک ہوں ، کسی رعایت کے مستحق نہیں ۔

١١. ہر مکتبِ فکر اور مسلک کو مثبت اور معقول انداز میں اپنے عقائد اور فقہی نظریات کی دعوت  و تبلیغ کی شریعت اور قانون کی رو سے اجازت ہے، لیکن اسلامی تعلیمات اور ملکی قانون کے مطابق کسی بھی شخص، مسلک یا ادارے کے خلاف اہانت،نفرت انگیزی اور اتہام بازی پر مبنی تحریر  و تقریر کی اجازت نہیں۔

١٢. صراحت، کنایہ اور اشارہ کی ذریعے کسی بھی صورت میں انبیائے کرام و رُسل عُظام علیھم السلام ،  اہل بیت اطہار ، صحابہ کرام، شعائر اسلام اور ہر مسلک کے مسلمہ اکابر کی اہانت کے حوالے سے ضابطہ فوجداری کے آرٹیکل 295– 298 کی تمام دفعات کو ریاستی اداروں کے ذریعہ لفظاً اور معناً نافذ کیا جائے اور اگر ان قوانین  کا کہیں غلط استعمال ہوا ہے تو اس کے ازالے کی احسن تدبیر ضروری ہے، مگر قانون کوکسی صورت میں کوئی فرد یا گروہ اپنے ہاتھ میں لینے اور متوازی عدالتی نظام قائم کرنے کا مجاز نہیں۔

١٣. عالم دین اور مفتی کا منصبی فریضہ  ہے کہ صحیح اور غلط نظریات کے بار ے میں دینی آگہی مہیا کرےاور مسائل کا درست شرعی حل بتائے، البتہ کسی کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کرنا کہ آیا اس نے کفر کا ارتکاب کیا ہے یا کلمہ کفر کہا ہے ، یہ ریاست و حکومت اور عدالت کا دائرۂ اختیار ہے۔

١٤. سرزمین پاک اللہ تعالیٰ کی مقدس امانت ہے۔ اس کا ایک ایک چپہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ریاست پاکستان کو ودیعت کردہ اقتدار اعلیٰ کا امین ہے۔ اس لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین  کسی بھی قسم کے دہشت گردی کے فروغ، دہشت گردوں کے گروہوں کی فکری و عملی تیاری، کسی بھی مقام پر دہشت گردی کے لیے لوگوں کی بھرتی، مسلّح مداخلت اور اس جیسے دوسرے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے ہرگز استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔

١٥. مسلمانوں میں مسالک و مکاتب فکر قرون اُولی سے چلے آرہےہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ان میں دلیل و استدلال کی بنیاد پر فقہی اور نظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہیں گے، لیکن یہ تعلیم و تحقیق کے موضوعات ہیں اور ان کا اصل مقام درس گاہیں ہیں۔  اختلاف رائے کے اسلامی آداب (آداب مراعاة الخلاف) ethics of disagreement))  کو تمام سرکاری و نجی درسگاہوں کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔

١٦. اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان 1973ء کے مطابق حکومت اور عوام کے حقوق و فرائض ہیں۔ جس طرح عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض درست اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کے تقاضوں کے مطابق انجام دیں، اسی طرح ریاستی ادارے اور ان کے عہدے دار بھی اپنے فرائض حقیقی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کے تقاضوں کے مطابق ادا  کرنے کے پابند ہیں۔

١٧.  پُر امن بقائے باہمی اور باہمی برداشت کا فروغ پر امن اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے، اس لیے اسلام کے اصولوں کے مطابق  جمہوریت ، حریت، مساوات، برداشت ، رواداری، باہمی احترام اور عدل و انصاف پر مبنی پاکستانی معاشرے کی تشکیل جدید ضروری ہے۔اس مقصد کے لیے ملک کے اہل علم و دانش اور اہل اختیار و اقتدار کو مطلوبہ کاوشوں کو مربوط طریقہ سے ہم آہنگ کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔

١٨. اسلام احترام انسانیت اور اکرام مسلم، نیز بزرگوں،  بچوں، خواجہ سراؤں، معذوروں اور دوسرے محروم طبقوں کے تحفظ کے لیے جو تعلیمات دیتا ہے ان کی سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ترویج ضروری ہے، نیز پاکستانی معاشرے میں انسانی و اسلامی بھائی چارے اور مواخات جیسے اسلامی اداروں کے احیاء کے ذریعے صحیح اسلامی معاشرے کے  قیام کے اقدامات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے۔

١٩.پاکستان میں رہنے والے پابند آئین و قانون تمام غیر مسلم شہریوں کو جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ اور ملکی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے وہی تمام شہری حقوق حاصل ہیں جو پابند آئین و قانون مسلمانوں کو حاصل ہیں، نیز یہ کہ پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو اپنی عبادت گاہوں میں اور اپنے تہواروں کے موقع پر اپنے اپنے مذاہب کے مطابق عبادت کرنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔

٢٠. اسلام خواتین کو احترام عطا کرتا ہے اور ان کے حقوق کی پاس داری کرتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع میں بھی عورتوں کے حقوق کی پاس داری کی تاکید فرمائی ہے، نیز رسول اللہﷺ کے دور سے اسلامی ریاست میں خواتین کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری رہی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق خواتین کو حق رائے دہی، حصول تعلیم کا حق اور ملازمت کا اختیار حاصل ہے، لہٰذا خواتین کے تعلیمی اداروں کو تباہ کرنا اور خواتین اساتذہ اور طالبات  پر حملے کرنا شریعتِ اسلامیہ اور قانون کے منافی ہے۔ نیز اسلامی تعلیمات کی رو سے غیرت کے نام پر قتل اور خواتین کے دیگر حقوق کی پامالی احکام شریعت میں سختی سے ممنوع ہے اور ان کی سخت سزا ہے۔ ریاست پاکستان کو اس قسم کی سرگرمیوں کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مکمل حق حاصل ہے۔

٢١. لاؤڈ سپیکرکے ہر طرح کے غیر قانونی استعمال کی ہر صورت میں حوصلہ شکنی کی جائے  اور متعلقہ قانون پر من و عن عمل کیا جائے اور منبر و محراب سے جاری ہونے والے نفرت انگیز خطابات کو ریکارڈ کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے، نیز ٹیلیویژن چینلوں  پر مذہبی موضوعات پر مناظرہ بازی کو قانوناً ممنوع اور قابلِ دست اندازیِ پولیس قرار دیا جائے۔

٢٢. الیکڑانک میڈیا کے حقِ آزادئ اظہار کو قانون کے دائرے میں لایا جائے اور اس کی حدود کا تعین کیا جائے ۔

خلاصۂ کلام

١. دستور پاکستان 1973ء اسلامی اور جمہوری ہے اور یہ پاکستان کی تمام اکائیوں کے درمیان  ایسا عمرانی معاہدہ ہے جس کو تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ کی حمایت حاصل ہے، اس لیےاسلامی جمہوریۂ پاکستان کے دستور کے تقاضوں کے مطابق پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس دستور کی موجودگی میں کسی فرد یاگروہ کو  ریاستِ پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف کسی قسم کی مسلح جدوجہد کا کوئی حق حاصل ہے۔

٢. نفاذ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ  آرائی نیز لسانی، علاقائی، مذہبی، مسلکی اختلافات اور قومیت کے نام پر تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں احکام شریعت کے خلاف ہیں اور پاکستان کے دستور وقانون سے بغاوت اور طاقت کے زور  پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت کے احکام کی مخالفت اور فساد فی الارض ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون کی رو سے ایک قومی اور ملی جرم بھی ہے۔ دفاع پاکستان اور استحکام پاکستان کے لیے ایسی تمام تخریبی کارروائیوں کا خاتمہ ضروری ہے، اس لیے ان کے تدارک کے لیے بھرپور انتظامی ،تعلیمی، فکری اور دفاعی اقدامات کیے جائیں گے۔

٣. دستور پاکستان کے تقاضوں کے مطابق پاکستانی معاشرے کی ایسی تشکیل جدید ضروری ہے جس کے ذریعے سے معاشرے میں منافرت، تنگ نظری، عدم برداشت اور بہتان تراشی جیسے بڑھتے ہوئے رجحانات کا خاتمہ کیا جا سکے اور ایسا معاشرہ قائم ہو جس میں برداشت و رواداری ، باہمی احترام اور عدل و انصاف پر مبنی حقوقو فرائض کا نظام قائم ہو ۔


http://bit.ly/2K7hBq6 : :پیغامِ پاکستان  اسلامی جمہوریۂ پاکستان 



Narrative Against Terrorism: Paigham-e-Pakistan

اردو انڈکس پیغامِ  پاکستان 

English Index


Download  Links .. تفصیل ملاحضہ فرمائیں علماء کےنام اور ریمارکس 


Design a site like this with WordPress.com
Get started